امید کرتا ہوں کہ ظہیر مستقبل میں اپنی غلطی کو سدھار کر نیک راہ پہ چلے گا۔
تحریر: ڈاکٹر فرخ رضا ملک
آج عید کے بعد پہلا دن تھا دفتر میں، کافی مصروفیت رہی۔ درخوستگزار و دیگر لوگ اپنے مسائل لے کر آئے۔ اسی دوران کچھ صحافی دوست بھی ملنے آئے۔ انہوں نے باتوں باتوں میں ایس ایچ او تھانو بولا خان پہ درج کئے جانے والے کیس کا بھی تذکرہ کیا۔ میں نے کہا جی ہاں مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ انہوں نے اپنے کچھ خدشات کا اظہار کیا اور سوشل میڈیا پہ چلنے والی بحث کا بھی حوالہ دیا۔ چونکہ میں مصروف تھا، اس لئے میں نے اس وقت سوشل میڈیا نہیں دیکھا۔ ابھی گھر پہنچا ہوں۔ کھانے کا انتظار کر رہا تھا کہ سوچا سوشل میڈیا پہ چھڑی بحث کو دیکھ لوں۔
اکثر باتیں جو میں نے اس معاملے پہ پڑھیں، حقائق کے برعکس، قیاس آرائیوں پہ مبنی تھیں۔ سوچا میں اپنا نکتہ نظر بھی بیان کروں تاکہ ریکارڈ کا حصہ رہے۔
سابق ایس ایچ او، ظہیر سولنگی ایس ایچ او لگنے سے پہلے میرے دفتر میں ڈے آئی سی انچارج تھے۔ ظاہراً ایک شریف النفس انسان معلوم ہوتے تھے۔ گفتگو انتہائی مناسب اور لہجہ دھیما۔ ان سے بات کریں تو انتہائی باادب شخص معلوم ہوتے۔ میرے دفتر میں ان کی اچھائی کو دیکھتے ہوئے ان کو ایس ایچ او لگایا گیا۔ جب ان کو چارج سنبھالنے کے لئے فون کیا گیا تو ان کو مبارک باد کے ساتھ کچھ نصیحتیں بھی کیں کہ باکردار فرد کی طرح نوکری سرانجام دینی ہے۔ ان سے مجھے بہت امیدیں تھی اور اطمینان تھا کہ ظہیر سولنگی اچھے ایس ایچ او ثابت ہوں گے۔ مجھے اندازہ نہیں تھا کہ کچھ دنوں میں مجھے یہ خبر نصیب ہو گی کہ وہ منشیات کی لعنت سے وابستہ لوگوں کے ہاتھ چڑھ گئے ہیں۔
کل رات ان سے گٹکا ماوا برآمد ہوا جس کی ایف آئی آر درج ہوئی۔ میرے لئے یہ بات انتہائی تکلیف کا باعث ہے۔ لیکن چونکہ میں سمجھتا ہوں کہ اس قبیح فعل سے وابستہ خواہ کوئی بھی ہو، اس کے خلاف کاروائی ہونی چاہئے۔ اس لئے قانون کی بلا تفریق پاسداری اہم ہے۔
ظہیر کا ماضی کتنا ہی اچھا کیوں نہ ہو، کیا یہ جانتے ہوئے کہ وہ منشیات کے اس قبیح بیوپار سے وابستہ ہے، اسے صرف اس لئے چھوڑ دیا جاتا کہ وہ ماضی میں اچھا اور کافی ملنسار واقع ہوا تھا اور اس کا تعلق محکمہ پولیس سے ہے؟ آج جو لوگ ظہیر سے ہمدردی جتا رہے ہیں، کیا وہ جانتے ہیں کہ یہ اس مافیا کا حصہ بن گیا تھا جو اس معاشرے کو اندر ہی اندر کھوکھلا کر رہا ہے؟ کیا اس پاک وردی میں چھپی کالی بھیڑوں کو واضح کرکے سامنے لانا کوئی غلط بات ہے؟
جب مجھے ظہیر کی حرکت کا پتہ چلا تو میں نے براہراست اس سے دریافت کرنا چاہا۔ چائے منگوائی، اچھے ماحول میں بات کی، میں سمجھتا ہوں کہ کسی فرد کی عزت نفس مجروح نہیں ہونی چاہئے اس لئے میں نے اپنے سامنے بٹھا کر پوچھا لیکن افسوس اس کے چہرے پہ ندامت و پشیمانی تھی۔ اس کے پاس سوالوں کے جوابات نہیں تھے اور وہ اپنی غلطی تسلیم کررہا تھا۔ اس نے واضح کیا کہ وہ بہک گیا تھا۔ یہ جان کر میں مطمئن ہوا کہ کاروائی درست کی گئی۔ جو منشیات فروش مافیا کا حصہ ہو، خواہ وہ میرا بھائی ہی کیوں نہ ہو، بلا تفریق کاروائی ہونی چاہئے۔
جہاں تک سوشل میڈیا پہ اس معاملے کے بارے میں بحث کی بات ہے، مجھے ان سب سے بھی ہمدردی ہے کہ وہ سب ظہیر سولنگی کے باکردار ماضی کو دیکھتے ہوئے دھوکہ کھا رہے ہیں۔ حال کے ظہیر کا دامن ماضی کے ظہیر کی طرح صاف نہیں ہے۔ سابق ایس ایچ او تھانو بولا خان، ظہیر سولنگی، کل کے معلم ظہیر صاحب کے پاؤں کی مٹی کے برابر نہیں۔
میں امید کرتا ہوں کہ ظہیر مستقبل میں اپنی غلطی کو سدھارے گا اور نیک راہ پہ چلے گا۔