جی ایم سید سے ایک یادگار ملاقات
تحریر:اسحاق سومرو
جی ایم سید ایک سندھی سیاست دان اور محقق ہیں جنہوں نے سندھ کی سیاسی، علمی، ادبی اور سماجی تاریخ میں اہم کردار ادا کیا۔ وہ خود بھی جدید سندھ کی سیاست میں شامل رہے، خاص طور پر سندھ کی بمبئی سے علیحدگی، سندھ کو الگ صوبہ بنانے ، سندھ اسمبلی میں 1943 مین پاکستان کی حمایت میں قرارداد پاس کروانے اور 1970 کے انتخابات میں ذاتی طور پر حصہ لینے کے بعد بھی اپنی موت تک مسلسل وہ آزاد سندھ کی بات کرتے رہے۔
اس کے علاوہ جی ایم سید جنہیں سندھی تاریخ اور ادب کو پیغام لطیف، جیسا کہ میں نے دیکھا ، جنب گزاریم جن سین اور بہت سی کتابیں دینے کا اعزاز حاصل ہے، جی ایم سید کو 20 صدی کے سندھی سیاست دانوں میں ایک تاریخی اور ممتاز شخصیت کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔
میں جی ایم سید کے نام اور ان کے کام کو بچپن سے جانتا تھا، کیونکہ سکرنڈ اور سن سٹی، اب بھی سندھ کے جڑواں شہر ہیں۔ درمیان میں محراب پور گاۤنون ، پئی کا جنگل اور دریائے سندھ ہیں۔ لہٰذا، خود جی ایم سید کی زرعی زمینیں، سیاسی، ذاتی اور سماجی روابط، جن میں سید امداد محمد شاہ، امیر حیدر شاہ، اور زین شاہ شامل ہیں، آج بھی سکرنڈ کی بہت سی برادریوں اور لوگوں کے ساتھ موجود ہیں۔ جی ایم سید کا سیاسی اثر سکرنڈ تعلقہ اور آس پاس کے علاقے اور اس کی شخصیات تک پھیلا ہوا تھا، خاص طور پر سید حسن بخش شاہ، جو کہ موجودہ رکن قومی اسمبلی سید غلام مصطفی شاہ کے دادا تھے، جو جی ایم سید کے بھت قریبی دوست سمجھے جاتے تھے۔جی ایم سید سے تعلق کی وجہ سے سید حسن بخش شاہ متعدد بار رکن سندھ اسمبلی بھی بنے ۔
میں نے جی ایم سید کا نام سب سے پہلے اپنے دادا سائیں محمد فاضل سومرو سے سنا۔ میرے دادا انگریزوں کے دور میں محکمہ ڈاک میں کام کرتے تھے۔ وہ اسے جیم شاہ کہتے تھے۔ آج بھی سکرنڈ کے بزرگ انہیں جیم شاہ کے نام سے پکارتے ہیں۔ دادا سارا دن سفر کر کہ خطوط ان تک پہنچاتے۔ وہ ہمیں جی ایم سید کی کہانیاں سناتے تھے۔ میری خواہش تھی کہ کسی طرح سندھ کے اس اھم سیاست دان سے ملاقات ہو جائے، جب کہ جی ایم سید کی سالگرہ جو ہر سال 17 جنوری کو منائی جاتی تھی، مجھے ان کی سالگرہ کی کئی تقریبات میں شرکت کا موقع ملا۔
سالگرہ کی تقریب میں شرکت کے لیے سردیوں میں صبح سویرے جیپ یا بس کے ذریعے محراب پور جانا، پھر جنگل میں سے پیدل چل کر، کشتی میں سوار ہونا، دریائے سندھ کو پار کرنا، اور پھر سالگرہ کی کے ہجوم میں شامل ہونا۔ جی ایم سید سے پہلی اور آخری تفصیلی ملاقات سکرنڈ میں تعینات سن کے رھنے والے ڈاکٹر شبیر میمن کی بدولت ہوئی۔ شبیر میمن جیسا عزیز دوست جو اب ہم میں نہیں رہا جوانی میں ہی انتقال کر گیا۔
ڈاکٹر شبیر کے ساتھ، میں، میرے بچپن کے دو ہم جماعت دوست پیر حماد اللہ اس وقت درگاہ خنیاروی شریف کے سجادہ نشین ہیں، میرے دوسرے عزیز دوست فیض رند ہیں، جو مہران یونیورسٹی/کالج نواب شاہ میں سپاف کے پلیٹ فارم سے سیاست میں سرگرم تھے۔ فیض رند اس وقت خیرپور میں بطور زرعی انجینئر کام کر رہے ہیں۔ جی ایم سید سے ہماری تفصیلی ملاقات آج سے 42 سال قبل دسمبر 1983 میں اس کے اپنی شھر سن مین ان کے دریا کنارے بنگلے پر ہوئی تھی۔
جی ایم سید سکرنڈ اور سکرنڈ کے لوگوں سے بہت واقف تھے۔ انہوں نے پیر حمد اللہ سے اپنے والد اور دیگر بزرگوں کے بارے میں پوچھا، انہوں نے بعد میں اپنی زندگی کے کئی دلچسپ اور رنگین واقعات بھی سنائے۔ انہوں نے ایم آر ڈی کی جاری تحریک اور اس وقت کی سندھ کی سیاست کے بارے میں بھی تفصیل سے بات کی۔ انہوں نے اس وقت سکرنڈ کے گاؤں پنہل خان چانڈیو میں فوج کے ہاتھوں 16 افراد کے بہیمانہ قتل اور ایم آر ڈی کی جاری تحریک کو اقتدار کے بھوکے لوگوں کی تحریک قرار دیا اور کہا کہ یہ لوگ اقتدار کے لیے مر رہے ہیں۔ ھم ان پر افسوس کیوں کریں؟
انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی والے سندھ کے دشمن ہیں، کیونکہ انہوں نے ہر مخالف خصوصاً پیپلز پارٹی کے کسی بھی رہنما کا نام لیتے وقت ان کا غصہ ان کے بیان اور دانت پیسنے سے صاف نظر آتا تھا ۔
انہوں نے کہا کہ میں ذوالفقار علی بھٹو کی اہلیہ نصرت بھٹو اور ان کی صاحبزادی بے نظیر بھٹو سے تعزیت کے لیے المرتضیٰ ہاؤس لاڑکانہ میں ملا تھا، میں نے ان سے کہا کہ ذوالفقار بھٹو کو پنجابیوں نے مارا، اب آپ سندھ کی آزادی کی بات کرین۔ ‘ہم آپ کے ساتھ ہیں، آپ کو پاکستان کی سیاست سے کچھ نہیں ملے گا’، انہوں نے مزید کہا کہ میرے بیان پر نصرت بھٹو خاموش رہیں تاہم بے نظیر بھٹو نے کہا کہ ہم ایسا نہیں کر سکتے کیونکہ ہماری سیاست پاکستان کے وفاقیت کے لیے ہے۔
انہوں نے سندھیوں اور اردو بولنے والے مھاجرون کو قریب لانے کی کوششوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ مہاجر رہنما نواب مظفر و دیگر مجھ سے ملنے آتے رہتے ہیں، ہجرت کرنے والے بکھر گئے ہیں، لیکن آگے وہ اور ہم ساتھ رہیں گے ۔
انہوں نے ہنستے ہوئے کہا کہ سندھ کے لوگ ضیاء الحق سے نفرت کرتے ہیں، امداد محمد شاہ کے بیٹے کا نام ضیاء الحق کے نام پر رکھنے پر ہم برہم ہیں۔ وہ ہمیں اپنی لائبریری دکھانے لے گئے، لائبریری کے ایک کمرے میں ذوالفقار علی بھٹو سمیت سندھ کے چند اہم سیاستدانوں کی تصاویر لگی ہوئی تھیں، انہوں نے فوراً کہا کہ ان تصویروں میں موجود تمام لوگ سندھ کے عظیم لوگ ہیں، ان کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ اس گفتگو کے دوران وہ نماز کے لیے باہر نکلے، میں نے ان سے پوچھا کہ کیا آپ بھی نماز پڑھتے ھین؟ کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد اس نے جواب دیا، “ہاں… مجھے نماز کی عادت ہو گئی ہے۔
ان کے بنگلے کے ہر کمرے میں ٹیلی فون سیٹ اور ایئرکنڈیشن تھا۔ کتابوں اور الماریوں کو بڑی نفاست سے سجایا گیا تھا۔ جی ایم سید سے گفتگو کے دوران ہم نے ان سے مختلف سوالات کیے کہ آزادی کے بعد سندھ کا طرز حکمرانی کیسا ہوگا، جمہوری، سوشلسٹ یا کوئی اور؟ انہوں نے جواب دیا کہ یہ آزادی کے بعد کا سوال ہے۔ ہمارے سوالات سے واضح تھا کہ ہم نہ تو ان کی جماعت سے وابستہ تھے اور نہ ہی ان کے حمایتی، اس لیے گفتگو کے دوران ان کا رویہ ہمارے ساتھ بعض اوقات سخت ہو جاتا تھا۔ اس بحث کے دوران کچھ دیر جیئے سندھ کے اسٹوڈنٹ لیڈر دودو مہری اور غلام مصطفی شاہ (ٹھٹو) جو غالباً اس وقت سپاف کی مرکزی شخصیت تھے، بھی بیٹھے رہے۔ وہ ہماری میٹھی اور کھٹی گفتگو سے محفوظ ھوتے رھے۔
جی ایم سید اپنی طبیعت اور مزاج کے لحاظ سے ایک نازک مزاج، نفیس اور علم دوست انسان تھے اور نہایت مہمان نواز انسان تھے۔ 1983 تک، یا شاید اس کے بعد کئی سالوں تک، سن میں کوئی کھانے کا ھوٹل نہیں تھا۔ کیونکہ جی ایم سید کہا کرتے تھے کہ سن میں جو بھی آتا ہے وہ میرا مہمان ہے جو سندھ کی مہمان نوازی کی روایات کی شاندار مثال تھا۔ اس کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ ذاتی طور پر ہر مہمان کو دروازے تک چھوڑنے آتا تھا، ہم نے اس سے التجا کی کہ وہ ایسا تکلف نا کرین ، لیکن اس نے اپنی روایات کو نہیں چھوڑا۔ ہم نے اس کے ساتھ بہت سی تصویریں کھینچیں۔ میری خوش قسمتی ہے کہ سندھ کے اس اھم سیاستدان سے دو دن ملاقات ہوئی۔
انہوں نے سندھ اور سندھیوں، اردو بولنے والے مھاجرون، اوراس وقت چلنے والی ایم آر ڈی تحریک پر کھل کر بات کی۔ اس وقت میرا مطالعہ اور سمجھ بوجھ محدود تھا۔ اس کے بعد میں ان کی تقریباً تمام کتابیں پڑھ چکا ہوں۔ میرے پاس اب بھی ان کے بیانات، انٹرویوز وغیرہ کی بہت سی فائلیں موجود ہیں۔ وہ سندھ کے ایک اھم سیاست دان ہونے کے ساتھ ساتھ نامور ادیب بھی تھے۔ مجھے ایسا لگتا ہے کہ جی ایم سید سندھ کے واحد سیاستدان ہیں جنہوں نے سیاست کے ساتھ ساتھ جو کچھ لکھا ہے اسے پڑھ کر ہم جیسے تاریخ کے طالب علم سندھ کے ماضی قریب کے بارے میں علم حاصل کرتے ہیں۔